ڈاکٹروقار کی کتاب ’’انایا‘‘ پر بے لوث تبصرہ

میں اُس وقت تک ڈاکٹر وقار کو فلسفے والا ڈاکٹروقار سمجھتارہا جب تک اُن کا شعری مجموعہ’’انایا‘‘ مجھ تک نہ پہنچ گیا۔ فلسفے والے ڈاکٹروقار کو میں نہیں جانتا۔ یونہی  غالباً پروفیسر سحرین بخاری کے ساتھ کسی ٹیلیفون کال کے دوران اُن کا نام ذہن میں رہ گیاتھا، جب سحرین نے بتایا کہ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے فلسفہ ڈیپارٹمنٹ میں ایک ڈاکٹروقار ہوتے ہیں۔ بس یہ نام ذہن میں تھا  اور جب فیس بک پر ایک شاعرڈاکٹروقار سے تعارف ہوا تو میں نے خود ہی دونوں کو آپس میں مِکس کردیا۔چنانچہ جب شاعر ڈاکٹروقار نے مجھ سے ایڈریس مانگا تاکہ وہ اپنا شعری مجموعہ بھیج سکتے تو میں نے یہی جانا کہ ایک فلسفی شاعر کی کتاب پڑھنے کو ملے گی۔ لیکن جب کتاب موصول ہوئی تو راز کھلا کہ شاعر وقار میڈیکل کے ڈاکٹر ہیں اور ابھی خاصے کم عمر ہیں۔ میڈیکل کے ڈاکٹر ہونے کا پتہ اُن کے دیباچے سے چلا جبکہ اُن کی عمر کا پتہ اُن کی ایک نظم سے چلا جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’’میں ابھی اکیس سال کا ہوں‘‘۔

ذاتی طورپر میں  ، عمر بھرشعری مجموعہ چھپوانے کے سخت خلاف رہاہوں۔ میرا ماننا ہے کہ شعر چھَپنے کےلیے نہیں ہوتا۔میرا ایک فضول سا شعر بھی ہے کہ،

جو شعری مجموعہ شائع ہوتا ہے

اِتنا  پیسہ یونہی ضائع ہوتا ہے

خیر! پھر جب میں نے ڈاکٹروقار کی کتاب پڑھنا شروع کی تو اندازہ ہوا کہ میں ایک نوجوان شاعر کو پڑھ رہاہوں جو اپنے عہدکے نوجوانوں میں نسبتاً اچھا لکھتے ہیں۔ ایک شاعر، شاعر بنتے ہوئے کئی مراحل سے گزرتاہے۔کوئی بھی بچہ معروضی کائنات کے لیے زیادہ متجسس ہوتاہے،ابھی اُس کے اندر کا جہان آغاز ہورہاہوتاہے۔جُوں جُوں وہ بڑا ہوتاجاتاہے اس کی توجہ تتلیوں، پتنگوں، پھولوں اور رنگوں سے ہٹتی چلی جاتی ہے اور وہ اپنی ذات پر تدبّر شروع کردیتاہے۔ شباب تک پہنچتے پہنچتے وہ دونوں جہانوں، یعنی عالم ِ معروض اور عالم ِ موضوع کے تقریباً عین درمیان کھڑاہوتاہے، الّا قلیل۔ اور جب جوانی سے نکلنا شروع ہوتاہے تو عالمِ معروض کم ہوتاچلا جاتاہے اور اس کے اندر کی دنیا بڑی  اور کشادہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ شاعر بھی چونکہ انسان ہی ہے سو زندگی کے اِن مراحل سے تو وہ بھی گزرتاہے لیکن اِس فرق کے ساتھ کہ وہ ہرمرحلے کے دوران، اپنے تجربات کو بیان کرتاہوا آگے بڑھتاہے۔چنانچہ ایک شاعر کے لیے مکمل شاعر بننے تک کئی مراحل ہیں۔

۱۔ پہلے مرحلے میں اُسے ’’فن‘‘ کی باریکیوں کا پتہ نہیں ہوتا۔نہ ہی اس کے مطالعہ میں کچھ زیادہ اشعار یا شعرأ ہوتے ہیں۔ پاکستانیوں کو اقبال کے کچھ اشعار، یا نصابی کتابوں میں پڑھے اشعار کے علاوہ جمعہ کے خطیبوں سے سنے گئے چند اشعار اور پھر معاشرے میں گردش کرتے ہوئے چند اشعار کا علم ہوتاہے۔چنانچہ جب وہ شعر کہنا شروع کرتاہے تو بہت ہی ناپختہ ہوتاہے۔اتفاق سے ہی اس کا کوئی شعر منفرد ہو تو ہو ورنہ وہ ساری شاعری عموماً تمام شعرأ بالآخر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں۔

۲۔ دوسرے مرحلے میں اُسے فن کی باریکیاں اپنے ساتھ الجھانے لگتی ہیں۔اردو شاعری کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ جب تک وزن میں نہ ہو،شاعرمزاج قارئین اِسے بطور شاعری قبول کرنے  کےلیے تیار نہیں ہوتے۔ میری ایک طالبہ اکثر کہا کرتی ہیں کہ’’ ٹوٹا ہوا لیکن  ایک اچھے خیال کا حامل شعر عوام کوسنایا جائے توداد ملتی ہے، کسی شاعر کو سنایا جائے تو اُس کا دھیان خودبخود سب سے پہلے وزن پر چلاجاتاہے اور اس کے لیے مضمون کا سارا مزہ یکایک کِرکرا ہوجاتاہے‘‘ یہ بات سچ ہے۔اردوشاعری کو وزن کے جھنجٹ سے کب آزاد کیا  جاسکے گا ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن خدا نخواستہ اگر کبھی یہ مقام اردو شاعری پر آگیا تو یقیناً  یہ اردو شاعری کے زوال کا دور ہوگا،  عروج کا نہیں۔ فرض کریں، مشرقی موسیقی ’’ترقی‘‘ کرتے کرتے مغربی موسیقی کے مقام تک جاپہنچے، جیسا کہ اب لگ رہا ہے کہ جاپہنچے گی، تو کیا یہ مشرقی موسیقی کا زوال نہ ہوگا؟ کیونکہ مغربی موسیقی آج جس مقام پر کھڑی ہے، یہ مقام تو ہماری موسیقی پر موہنجو داڑو اور ہڑپہ کے زمانوں میں شاید رہاہو۔ خیر! تو دوسرے مرحلے میں شاعر کی توجہ ’’خیال‘‘ سے زیادہ بحر، ردیف، قافیہ اور اوزان پر مرکوز رہتی ہے۔ وہ نت نئے تجربات کرتاہے۔ نئی نئی بحروں میں مشق کرتاہے۔ نئی نئی ردیفوں کو استعمال کرکے مختلف آمیزے تخلیق کرتاہے۔ چنانچہ اُس کی شاعری میں فن کا اظہار بڑھتاچلاجاتاہے اور خیال کی خوبصورتی کم ہوتی چلی جاتی ہے۔

۳۔ تیسرے مرحلے میں شاعر دوسرے شعرأ کا مطالعہ شروع کرتاہے۔ مشاعروں میں سن سن کر یا کتابیں پڑھ پڑھ کر۔ یہ وہ دور ہے جب شاعر پر دوسروں کے رنگ چڑھتے ہیں۔جن دِنوں ، جن شعرأ کا کلام پڑھ رہاہو، اُن دنوں اُنہی کے رنگ میں شعر کہنا شروع کردیتا ہے۔اگر کلاسیکی شاعری پڑھ رہاہو تو کبھی  میر بن جاتاہے اور کبھی غالب۔اگر تحفے میں ملنے والی کتب پڑھ رہاہو تو کبھی وصی شاہ بننے کی کوشش کرتاہے تو کبھی بشیر بدر۔غرض تیسرا دور ’’رنگ پکڑنے‘‘ کا دور ہے۔ چنانچہ اس دور میں اگرچہ اسےفن سے تو اچھی خاصی واقفیت ہوچکی ہوتی ہے لیکن ابھی وہ یہ نہیں جان پاتا کہ کون سے خیالات پرانے ہیں اور کون سے نئے۔ اس مرحلہ کے اختتام تک وہ مضامین اور خیالات کے نئے یا پرانے ہونے سے واقف ہونے لگتاہے۔

۴۔ چوتھے مرحلے میں ایک شاعر کے علم میں آتاہے کہ ’’تنقید‘‘ بھی کوئی شئے ہے۔ حلقے کے اجلاسوں میں جانے والے شعرأ اس مرحلے پر جلد پہنچ جاتے ہیں لیکن ایسے شعرأ جو ’’باقاعدہ‘‘ حلقوں سے دور ہیں، انہیں کچھ وقت لگ جاتاہے۔ تنقید کی سان پر بار بار چڑھنے کےبعد ایک شاعر کو اپنے تمام سفر میں پہلی بار احساس ہوتاہے کہ اُس کا اپنا رنگ ابھی  نہیں بن پایا۔ ابھی وہ ’’کلیشے‘‘ کی  تکرار کا شکارہے۔ ابھی اس کے مناظر پرانے ہیں۔ ابھی اس کا بیان دوسروں کے بیان سے ملتاجلتاہے۔ تنقید کے مرحلے سے گزرجانے کے بعد وہ پہلی بار اپنے رنگ کی طرف ازخود توجہ مرکوز کرتاہے۔ اپنارنگ؟  وہ سوچتاہے ، اُس کا اپنا رنگ کیا ہے؟ پھر وہ اپنا رنگ تلاش کرنا شروع کرتاہے۔ اپنا رنگ تلاش کرنابالکل ایسا ہے جیسے ’’من عرف نفسہُ‘‘ کے مصداق اپنی ذات تلاش کرنا۔ یہ مرحلہ بہت طویل اور صبرآزماہے۔ اس مرحلے کے اختتام سے پہلے کسی شاعر کو اپنا مجموعہ نہیں چھپوانا چاہیے۔

۵۔ پانچواں مرحلہ آخری مرحلہ ہے۔ اس مرحلے میں شاعر اپنا رنگ پکڑ چکاہوتاہے۔ فن اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں رہ جاتا۔ وہ اپنی مرضی سے بھی فن میں تبدیلیاں کرنے لگتاہے۔ اِس مرحلے میں وہ اپنے ہر تجربے کو بیان کرنے کے لیے کلیشے کی بارودی سرنگوں سے بچ بچ کر چلتاہے اور پھونک پھونک کر قدم رکھتاہے۔ اِس مرحلے میں ایک شاعر کبھی کبھار اچھے اشعار کہہ جاتاہے۔ ایسے اچھے اشعار جو زندہ رہتےہیں۔ایسے اشعار جو چھَپ جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔

ڈاکٹروقار کے شعری مجموعہ ’’انایا‘‘ میں اِن تمام مراحل کے اشعار شامل کردیے گئے ہیں۔ پہلے مرحلے سے آخری مرحلے تک کے اشعار ان کے ایک ہی مجموعہ میں مل جاتے ہیں۔ایک بار مجھے ظہیر باقر بلوچ نے  ایک بڑے مزے کی بات بتائی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ،

’’میر کے ہاں شاعری کے دفتر ہیں۔ میر کے چھ دفتر ہیں۔ اُردو میں ایسی کوئی مفرد بحر نہیں جس پر مِیر نے طبع آزمائی نہ کی ہو۔ میر کے پاس غالب سے کہیں زیاہ اچھے اشعار ہیں لیکن  میر کے اشعار کو غالب جیسی پذیرائی کبھی نہیں مل سکی۔ اس کی وجہ غالب کی ایک چالاکی ہے۔ وہ چالاکی یہ ہے کہ غالب نے بھی اشعار تو بے شمار کہے۔ شاید اتنے ہی کہے ہوں جتنے میر نے کہے لیکن جب غالب دیوان مرتب کرنے لگا تو اس نے نہایت مہارت سے چند اشعارلے کر اپنا مجموعہ بنادیا اور باقی تمام اشعار پتہ نہیں کہا ں گئے؟۔ اس سے یہ ہوا کہ غالب کے فقط وہی اشعار سامنے آگئے جو بہت اچھے تھے اور اردو کی تاریخ میں ’غالب غالب‘ ہونے لگی‘‘ (مفہوم)

ڈاکٹروقار نے بھی مِیر والا کام کیا۔ اگر وہ غالب والا کام کرتے تو میں سمجھتاہوں ان کے کلام میں ایسے اشعار موجود تھے جو اردو شعرأ کی بھرپورتوجہ حاصل کرنے کے اہل تھے۔ مثلاً

رہِ وفنا سے ملے، سدرۃُ البقأ سے ملے

تری طلب میں کئی بار ہم خدا سے ملے

یا

اِک طرف رب تھا اِک طرف مرا یار

اور پھر مجھ سے فیصلہ نہ ہوا

یا

میں بات بات پہ ہرشخص سے الجھتا ہوں

تمہارے غم نے مجھے چڑچڑا بنادیا ہے

یا

مجھ سے دوچار ہی خطائیں ہوئیں

اُن میں سے ایک بھول ہے تری یاد

یا

میں اپنے سینے پہ سر رکھ کے سونا چاہتا ہوں

تمہارے بعد بھی مجھ میں تمہاری عادتیں ہیں

یا

خدا کرے کہ مرے زخم یونہی تازہ رہیں

مرے کریم! مرے مہرباں کی خیر رہے

یا

ہم سے پوچھو دنیا کیا ہے

ہم نے دو صدیاں دیکھی ہیں

یا

ہم ازل سے ہی بھیڑوں کا ریوڑ رہے

جس نے چاہا جدھر ہانک کرلے گیا

کہیں کہیں تو پوری کی پوری غزل نہایت عمدہ ہے، مثلاً

ہم انہیں اپنا بنانے کے جتن کرتے رہے

جب کہ وہ ہاتھ چھڑانے کے جتن کرتے رہے

 

اپنی مستی میں ہمیں مست سمجھتے رہے لوگ

ہم تو بس اُن کو بھلانے کے جتن کرتے رہے

 

چند لوگوں پہ زمانوں نے بہت رشک کیا

اور کچھ لوگ زمانے کے جتن کرتے رہے

 

ایک یہ چھوٹا سا دل ہے جو نہیں بس  پایا

لوگ بس شہر بسانے کے جتن کرتے رہے

 

کچھ ستاروں نے محبت کو زمین پر بھیجا

اور زمیں زاد مٹانے کے جتن کرتے رہے

میرا مدّعا یہ ہے کہ ڈاکٹروقار کے اندر ایک بھرپورشاعر موجودہے جو ابھی بہت کچھ پھلے گا، پھولے گا، نکھرے گا، مہکےگا، سنورےگا اور وہ وقت بہت جلد آجائے گا جب ان کا ہر ہر شعر فی الواقعہ اردو شاعری میں مقام پاسکے۔اس بات کا مجھے یقین ہے۔ میرا نکتہ یہ ہے کہ ’’انایا‘‘ میں انہوں اپنے شعری سفر کے تمام مراحل کے اشعار شامل کردیے۔ مثلاً اُن کی نظم ابھی بہت کمزورہے لیکن انہوں نے نظمیں بھی شامل کردیں۔ اسی طرح بعض غزلیں جو فقط مشقِ سخن کے لیے کہی گئی ہیں ، جیسا کہ میں نے اُوپر مراحل کا ذکر کرتے وقت بتایا کہ ایک مرحلہ ہو ہوتاہے جب شاعر مختلف ردیفوں کو ذہن میں لاکر غزل کہنے کی مشق کرتاہے۔سو اس دور یعنی  ردیفوں کے تجربات والے دور میں کہی گئی غزلیں بھی ’’انایا‘‘ میں شامل ہیں۔ ایک غزل جس کی ردیف عشق ہے، اِسی طرح ، خاک، فزت برب الکعبہ، معذرت، فی سبیل العشق وغیرہ جیسی اور بھی کئی غزلیں ہیں۔ ان غزلوں میں اکادکّاشعر ہی اچھاہے۔ جیسا کہ فی سبیل العشق والی ردیف میں مجھے یہ شعر اچھا لگا۔

ہزاروں نسلوں سے ہم عشق زاد ہیں صاحب

ہماری نسل بھی قربان ، فی سبیل العشق

یا

میری حالت کہیں درمیاں میں رہی

بے خودی معذرت، آگہی معذرت

 

میں بسرکرنہ پایا تجھے ڈھنگ سے

معذرت زندگی، زندگی معذرت

یا

میں ثناخوانِ علی ہوں مرے الفاظ کی خیر

میں نے جو کچھ بھی کہا فُزْتُ بربِّ الکعبہ

پختہ اردوشاعری میں   مشہور عربی’’ روز مرّوں‘‘ پر مشتمل ردیفیں ہمارے باکمال شاعر ضیاجالندھری مرحوم استعمال میں لایا کرتے تھے۔لیکن ایک بات ہے، وقار خود تسلیم کرتے ہیں کہ اُن کے پاس ابھی وہ لہجہ نہیں ہے جس کی اُنہیں تلاش ہے۔ وہ کہتے ہیں،

زخم کی نزاکتوں کو نہیں سمجھ سکا

تو وقار خان ہے، جون ایلیا نہیں

خیر! یہاں تک جو کچھ میں نے لکھا وہ ایک پرانے قاری کے  خیالات ہیں۔ سب کے سب بھی غلط ہوسکتے ہیں۔ اصل رائے تو ماہرین ہی دیں گے، اگر ماہرین کے پاس وقت ہواتو۔ لیکن اگر وقار خان کے احساسات، جذبات، تجربات، کیفیات اوراُن کے خیالات کو موضوع بنا کر لکھاجائے اور ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظرانداز کردیا جائے جو یا تو فنی اعتبار سے معنی رکھتی ہیں اور یا  میری نظر کی کوتاہی کی وجہ سے میں نے لکھ دیں، تو پھر وقار خان فی الواقعہ ایک اچھا شاعر ہے۔وہ بلوچ ہیں  اس لیے ان کی شاعری میں احساسِ کمتری بالکل نہیں جو عموماً  زیادہ ترشعرأ میں دیکھا گیاہے۔ وہ یقیناً مادری زبان کے اعتبار سے سرائیکی بھی ہیں، جس کی مٹھاس ان کی اردو شاعری میں بھی محسوس ہوتی ہے۔ وہ نوجوان ہیں سو ان کے ہاں شباب کے ہارمونز بھی ابھی تیز رو ندّی جیسے ہیں، اس لیے رومانوی شاعری خوب کرتے ہیں۔ وہ خوبصورت ہیں اس لیے ان کے ہاں نفاست اور غرور بھی ہے۔یہ تمام شیڈز ’’انایا‘‘ میں ہرقاری کو صاف دکھائی دے سکتے ہیں۔ ان کی پوری کتاب میں صرف ایک شعر مجھے ایسا ملا جو بلوچوں کے مزاج کے خلاف تھا،

بھیک اب مانگتا نہیں ہوں میں

تُو اِدھرخود نظر کرے تو کرے

اس میں بھی صرف ’’اب‘‘ کے لفظ نے اِسے غیر بلوچ شعر بنادیا ورنہ بات پھر بھی اکڑ کر ہی کی گئی ہے۔باقی کتاب میں جابجا اُن کے بلوچ ہونے کا پتہ چلتاہے،

جاکسی اور کو جا دھمکیاں دے مارنے کی

جب سے میں پیدا ہوا تب سے سرِ دارہوں میں

وقار کے پاس بعض اشعار تو اتنے اچھے ہیں کہ جی چاہتاہے ان سے لڑائی کی جائے اور کہا جائے، کیوں نہ ایسی کتاب شائع کی جس میں تمام اشعار ایسے ہی ہوتے،

میں نے تو رب کو بھی پوجا ہے اور اُس یار کو بھی

واعظا! تُو ہی بتا کس کا گناہ گار ہوں میں

جانے کیوں دیر تک میں جب بھی اس شعر کو زیرِلب دہراتا تو میرے منہ  سے پہلا مصرع یُوں برآمد ہوتارہا،

میں نے تو رب کو بھی پوجا ہے اور اُس بُت کو بھی

واعظا! تُو ہی بتا کس کا گناہ گار ہوں میں

وقار اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھتےہیں،

’’مجھے یقین نہیں کہ میں کب تک جی رہاہوں لیکن جب تک میں اپنے سینے کے  آخری راز کو افشا نہیں کردیتا مجھے مہلت ملی ہوئی ہے۔ لیکن یہ ایک عجیب واقعہ ہے کہ وہ ساری باتیں  جو میں بیان کرنا چاہتاہوں وہ پہلے سے بیان ہوچکی ہیں لیکن اب تک وہ باتیں کیوں نہیں سُنی گئیں؟کیا سب بہرے ہی پیدا ہوئے ہیں یا بولنے والوں کی زبان میں اثر نہیں تھا؟‘‘

اس بات سے جہاں وقار کا اعتراف ثابت ہوتاہے کہ انہیں نئے خیالات آسانی سے میسر نہیں وہاں اُن کے اس شکوے کی گونج بھی سنائی دیتی ہے کہ جو خیالات پرانے سمجھے جاتے ہیں وہ بھی تو ویسے بیان نہیں ہوئے جیسے ہونا چاہیے تھے۔معلوم  ہوتاہے انہیں  اردو شاعری کے پورے بیانیے میں موجود خلاؤں کا اندازہ ہے۔

وقار کی تعلّی میں دونوں طرح کا رنگ موجود ہے۔ خوبصورت بھی اور غیرخوبصورت بھی۔ غیرخوبصورت تعلّی شاعری میں پسند نہیں کی جاتی لیکن خوبصورت تعلّی کو ہمیشہ سراہا گیاہے۔ مثلاً ’’قتیل وقت کے سینے میں ہم دھڑکتے ہیں‘‘ یا ’’اُردو ہے جس کا نام ہمی جانتے ہیں داغ‘‘ وغیرہ کو ہمیشہ سراہا گیاہے۔ وقار کے ہاں بھی خوبصورت  تعلّی کی مثالیں موجود ہیں۔ ان کی ایک نظم کی یہ سطریں مجھے اچھی لگیں،

سبھی سُورج

مری آنکھوں میں تکنے سے

منور ہونے لگتے ہیں

میں نے اپنی زندگی میں ایک بات بہت نوٹ کی ہے۔ شاعر کہنہ مشق ہو یا اُبھرتاہوا۔ جب کبھی وہ ’’نعت‘‘ یا ’’سلام‘‘ کہتاہے،اچھے اشعار خود بخود طلوع ہونے لگتے ہیں۔ وقار کو بھی ہر اچھے شاعر کی طرح اہلِ بیت سے محبت ہے۔ اور تقریباً تمام ایسے اشعار جو انہوں نے اِس محبت سے سرشار ہوکر کہے، اچھے اور توجہ کھینچ لینے والے ہیں،

میں ثناخوانِ علی ہوں مرے الفاظ کی خیر

میں نے جو کچھ بھی کہا فُزْتُ بربِّ الکعبہ

یا

پھر وہ غم ِ حیات سے آزاد ہوگیا

جس کو غمِ حسین کی دولت عطا ہوئی

یا

یہ روشنی کہ جو نوعِ بشر کو ملتی ہے

کوئی چراغ جلاتا ہے روز کربل میں

ڈاکٹروقار نوجوان ہیں اور ابھی انہوں نے زندگی کی بے شمار بہاریں دیکھنی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں ان کے بعض نظریات کے ساتھ خود کو متفق نہیں پاتا۔ مجھے یقین ہے کہ وقت ان پر ضرور کھول دے گا۔وقت اُن پر کھول دے گاکہ کچھ باتیں صرف عمر کے ساتھ پتہ چلتی ہیں، اور علاوہ بریں ان کے پتہ چلنے کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں۔ مثلاً مجھے وقار کے اس شعر سے فکری اعتبار سے اختلاف ہے،

اے مرے علم میں تو بھوکا ہوں

تو مرے واسطے رہا بیکار

بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ وہ یہاں’’علم‘‘ نہیں ’’تعلیم‘‘ کہنا چاہ رہے ہیں۔ یعنی وہ یوں کہنا چاہ رہے ہیں،

میری تعلیم! میں تو بھوکا ہوں

تو مرے واسطے رہی بیکار

میں اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں رکھتا کہ ڈاکٹروقار اچھے شاعر ہیں۔ بلکہ میری رائے یہ ہے کہ ڈاکٹر وقار ایک بہت اچھے شاعرہیں۔ ایک بہت اچھے نوجوان شاعر۔ اور مجھے یقین ہے کہ اُن کے الفاظ زندہ رہیں گے۔ ہاں کبھی کبھار جب کسی شاعر کو محسوس ہوتاہے کہ دوسرے شعرأ اُس سے اچھا کلام کہہ رہے ہیں تو اُسے ایک بے چینی سی ستانے لگتی ہے کہ ’’آخر میں کب اُن کے جیسا اچھا شعر کہہ پاؤنگا؟‘‘ اور اگر وہ اپنی اس شدتِ طلب کو الفاظ میں تسلیم بھی کرتاہے تو کوئی وجہ نہیں کہ  اُس کا ’’ربِّ شرح لی‘‘ بھی سن لیا جائے۔ڈاکٹروقار کا یہ شعر اِسی تمنّا کا غمّاز ہے،

میں ہوں شرمندہ اے مرے الفاظ

میں تمہیں زندگی نہ دے پایا

ایسے میں وہ اپنے اشعار بار بار دوسروں کو سناتاہے اور اُن کے چہروں پر ’’اصلی والی داد‘‘ تلاش کرتاہے۔وہ گویا ہر اچھے سامع سے توقع کررہاہوتاہے کہ وہ اُس کی رہنمائی کریگا۔ وہ اُسے اپنے تاثرات سے آگاہ کرے گا۔ وہ اُسے بتائے گا کہ  وہ کتنے پانی میں ہے۔ اسی کیفیت کا اظہار کرتے وقت ڈاکٹروقار نے جو شعر کہا ، وہ جہاں اُن کی نوجوانوں والی تعلّی کی جھلک پیش کرتاہے وہاں اُن کی بے تابی اور شدتِ تمنّا کا ثبوت بھی دیتاہے،

اے سُخن فہم مرے شعر سے کیا لگتاہے؟

کیا مرے بعد مجھے یاد رکھا جائے گا؟

ایک بات جو ڈاکٹروقار کی پوری کتاب میں مجھے شدت سے محسوس ہوئی وہ ہے اُن کا دوسروں کے درد میں شریک ہونے کا جذبہ۔یہ جذبہ کم وبیش سبھی میں ہوتاہے اور شعرأ میں کسی حد تک زیادہ  ہونا چاہیے، اگرچہ ہوتا نہیں ہے۔خبرنئیں کیوں؟ لیکن یہ بندہ تو شاعر بھی ہے ۔ میں سوچ میں مبتلارہا۔ کافی وقت گزرجانے کے بعد ایک جھماکا سا ہوا کہ وقار صرف شاعر نہیں میڈیکل ڈاکٹر بھی ہے۔ روز مریضوں  کو دیکھتاہوگا اور یہ جذبہ جو ظاہر ہے ہرانسان میں تھوڑا بہت موجود ہوتاہے، ڈاکٹری کے دوران ڈولپ ہوتارہاہوگا۔ انہوں نے اپنی اس ’’ادا‘‘ یعنی دوسروں کے غم میں شریک ہونا یا اُن کی مدد کرنا، کا ذکر اپنے دیباچے میں الگ سے بھی کیا ہے اور اُن کے اشعار میں تو جابجا یہ چیز نظرآتی ہے،

چوٹ دشمن پہ بھی پڑتی ہے تو رو پڑتے ہیں

خاک لڑ پائینگے احساس کے مارے ہوئے لوگ؟

یا

میں دوسروں کے بھلے کے لیے ہوں سرگرداں

میں بے وقوف ہوں یا ایسا کیا ہوا ہے مجھے؟

مجھے پہلے سے پتہ ہے کہ ملتان کے نواح میں بسنے والے بلوچ قبائل سرائیکی بولتے ہیں۔ہاں کوہِ سُلیمان سے اُوپر کے کچھ لوگ بلوچی بولتے ہیں اور پھر ڈیرہ غازی سے بلوچستان تک غالباً یہ سلسلہ چلا جاتاہے۔چنانچہ یقیناً ڈاکٹروقار کی مادری زبان اُردو نہیں ہے۔جب شاعر کی مادری زبان کوئی اور ہو اور وہ شاعری کسی اور زبان میں کرتاہوں تو ایک دلچسپ تجربہ کبھی کبھار خود بخود سرزد ہوجاتاہے۔ وہ تجربہ یہ ہےکہ، شاعر بے دھیانی میں اپنی مادری زبان کا کوئی محاورہ دوسری زبان میں ترجمہ کردیتاہے۔ ایک بار مجھے میری  ایک ردیف پر  کراچی کی ایک دوست نے لکھا،

’’آپ نے بے دھیانی میں شاید پنجابی کو اُردو میں ترجمہ کردیاہے۔ یہ اُردو نہیں بلکہ پنجابی  محاورہ ہے‘‘۔ میری ردیف کچھ اس طرح تھی،

جب سے جاناں خُدا ہوئے ہوئے ہو

درد نا آشنا ہوئے ہوئے ہو

اُن کا کہنا تھا کہ میں نے پنجابی والا، ’ہویے ہویے او‘‘ کو اردو میں، ’’ہوئے ہوئے ہو‘‘ کردیا ہے اور اُن کا خیال درست تھا۔ ڈاکٹروقار نے بھی بعض جگہ ایسا کیا ہے۔ اب معلوم نہیں ان سے سرزد ہواہے یا انہوں نے دانستہ ایسا کیا ہے۔مثلاً

تُو اگر اپنا حصہ چھوڑے وقار

بھائی بھائی سے مان جائے گا

بھائی بھائی سے مان جائیگا، خالص سرائیکی کا ترجمہ ہے۔مجھے لگا جیسے وقار کہہ رہاہوں، ’’تُو آپڑاں ونڈا چھوڑڈے وقار! تاں بھِرا بھِرا آپَت اِچ منیج پوسِن‘‘ اور  شایداتنا سوچ کر وقار نے اپنا حصہ چھوڑدیا ہوگا۔وہی بات کہ وہ دوسروں کے لیے قربانی ، ہمدردی، محبت، اور ایثار کا بے پناہ جذبہ رکھتے ہیں۔اِسی طرح یہ بھی سرائیکی کا ترجمہ ہے،

وقت کی دھوپ میں سڑا ہوں میں

اپنے قدموں پہ تب کھڑا ہوں میں

اگرچہ ’’قدموں‘‘ سے ’’اپنے پیروں پر کھڑاہونا‘‘ زیادہ اچھا محاورہ ہے۔ لیکن  میرا اصل مدعا تو پہلا مصرع ہے جس میں ’’سڑا ہوں‘‘ کا استعمال کیاگاہے جو کہ دراصل سرائیکی کا ترجمہ ہے اردو محاورہ نہیں۔جب میں نے وقار کا یہ والا شعر پڑھا کہ،

تُو اگر اپنا حصہ چھوڑے وقار

بھائی بھائی سے مان جائے گا

توبلوچوں میں جائیدادوں کے جھگڑے تصورات میں گھوم گئے۔بعض علاقوں کےبلوچ تو فقط اس لیے اپنی بہنوں، بیٹیوں کی شادیاں نہیں ہونے دیتے کہ یہ (بہن، بیٹی)چلی گئی تو ساتھ زمین کا بہت سا حصہ بھی جائے گا۔ یہاں غیرتِ قومی پر ثروتِ دنیاوی غالب آجاتی ہے۔ میں نے غالباً سرائیکی میں ایک بار اِس خیال  کا اظہار بھی کیاتھا،

کِڑی دے خان دی وَل دِھی کنواری کنج رہ گئی ہِے

نماڑِیں دی سُکے ڈَگُّر دے کیتے جنج رہ گئی  ہِے

ہرشاعر کی طرح ڈاکٹروقار کو بھی ’’خدا‘‘ کے ساتھ بڑے مسائل ہیں۔ دراصل شاعر بنیادی طور پر صوفی ہوتاہے۔ ایک شاعر جو دکھاوے کے لیے کمیونسٹ بھی ہو، اندر سے صوفی ہوتاہے۔خدا کے ساتھ اُس کا رشتہ ہی مختلف ہوتاہے۔ وہ کبھی خدا کے ساتھ لڑتاہے تو کبھی اُسے اپنے خدا پر ٹوٹ کر پیار آنے لگتاہے۔ باقی تینوں سلاسل کا تو پتہ نہیں لیکن چشتیوں کے ہاں خدا کے ساتھ اس طرح کے ’’نیازو گبڑے‘‘ کا رشتہ میں نے ہمیشہ نوٹ کیا ہے۔ خدا کے معاملے پر وقار کے پاس بھی لگ بھگ انہی مضامین کے اشعا رہیں جو اکثر شعرا کے پاس ہوتے ہیں۔ ہاں! یہ ضرور کہونگا کہ وقار کے اشعار بھی اچھے ہیں،

وہ خدا جو کہ خود ہے لامحدود

مجھ پہ پابندیاں لگاتا ہے

یا

اےخدا تجھ کو ہم رہینگے یاد

تُو بھی تو ہم کو یاد آئے گا

یا

مانا کہ فرض ہیں ترے سارے مطالبات

بندوں کے کچھ حقوق بھی ہونے تو چاہییں

یا

تُو دیکھ نہیں پائے گا اے حشر کے  مالک!

ہم لوگ جو یہ حشر اِدھر دیکھ رہے ہیں

یا

آسماں والے ایک بات بتا

یہ زمیں کس لیے بنائی گئی؟

یا

اے خدا بات کیوں نہیں کرتا

اے خدا اب تو تیرے گھر میں ہوں

ڈاکٹروقار پر ابھی لکھنے کو بہت کچھ باقی ہے۔ خاص طور پر اُن کے ایک شعر کی فکری جہات پر، حالاتِ حاضرہ کی روشنی میں کافی ساری بات کرنے کو جی چاہ رہاہے، اور وہ یہ شعر ہے کہ،

بس ایک خُون مرے سر پہ ہوچکا تھا سوار

تمیزِ مشرک و مؤمن نہ تھی جہاد کے وقت

لیکن اب مضمون بہت لمبا ہوگیاہے۔ اس سے زیادہ لمبا کِیا تو سوائے ڈاکٹروقار کے کوئی اور نہ پڑھے گا۔اس لیے میں ڈاکٹر وقار کو نہایت احترام، محبت اور خلوص کے ساتھ براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے ایک دو مشورے دینا چاہتاہوں۔ قارئین چاہیں تو بے شک مضمون کایہ حصہ نظرانداز کردیں کیونکہ یہ میری اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ پرسنل باتیں ہیں۔

وقار! آپ بہت اچھے شاعر ہیں۔ آپ میں ہمّت ہے اور آپ کے پاس دو زبانوں کے الفاظ  ہیں۔ آپ کو مبارک ہو کہ آپ نے کافی سارے اشعار بہت اچھے کہے۔ وقار! میں نے آج تک اپنا شعری مجموعہ اس لیے نہیں چھپوایا کہ میں نے آج تک ایک بھی اچھا شعر نہیں کہا۔ کوئی ایک بھی۔ مجھے اپنے کلام پر شرم آتی ہے، جب بھی پڑھتاہوں۔اس لیے اپنی شاعری کو فیس بک کی وال سے آگے، کبھی نہیں جانےدیا۔ وہ بڑے بڑے فورمز جن میں ادیب رہتے ہیں، میں وہاں اب کبھی نہیں گیا کیونکہ میں بونا ہوں۔ شاعری میں تو بالکل ہی بونا ہوں۔ لیکن آپ میں کیفیت ہے، جذبہ اور احساس بھی ہے۔ آپ ایک کام کریں۔ آپ کے مجموعہ کلام’’انایا‘‘ کی جب تمام کاپیاں ختم ہوجائیں تو اس کا دوسرا ایڈیشن تھوڑی سی تبدیلیوں کے ساتھ چھپوائیں۔ نمبرایک تو یہ کریں کہ اس مجموعے کی ضخامت کو اِس سے آدھا کردیں۔آدھی شاعری نکال دیں! خاص طورپر ایسے تمام اشعار نکال دیں،

ستاروں کو بسانے کی تمنّا

زمیں ویران ہوتی جارہی ہے

یا

آزاد مجھ کو  پیدا کیا ہے اگر تو پھر

مجھ  کو مرے مزاج سے جینے کا حق بھی دے

ایسے مضامین سب کی زبان پر عام ہیں۔’’ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا‘‘ جیسے اقبال کے اشعار سے لے کر آج کے پنجابی دوہڑے کہنے والوں تک سب کے پاس  یہ مضامین موجود ہیں۔اِسی طرح جن اشعار میں ذرا سا بھی’’ ذم‘‘ یا ’’سستا جنسی منظر‘‘ نکلنے کا پہلُو ہے، اُنہیں کتاب سے خارج کردیں۔ مثلاً یہ شعر بھی نکال دیں،

تیرے سینے پہ دم کروں مری جاں

تُو بہت بے سکُون لگتی ہے

آپ کا یہ شعر پڑھ کر مجھے خوشاب، کمہاراں والے محلے کا ایک نابینا حافظ یاد آگیا جو بینائی سے محروم تھا اس لیے ہاتھوں سے چھُو کر دَم کرتاتھا۔ لڑکوں کو گالوں پر اور عورتوں کوبعینہ آپ کے شعر کے مطابق دم کیا کرتاتھا۔علاوہ بریں آپ نے کئی اشعار میں ’’یا‘‘ کو یک حرفی باندھاہے۔

وہ وقت اچھا تھا جب لوگ ساتھ بیٹھتے تھے

کسی بھی طمع یا لالچ سے ماورا ہوکر

یاایسے اشعارجن میں واضح نقص موجودہے ، وہ بھی ماہرین سے رائے لے کر مجموعہ سے نکال دیں۔ مثلاً

جس طرح جاری ہے یاں خون خرابات کی جنگ

کیا خبر ہونے لگے واں پہ بھی درجات کی جنگ

اب اس شعر میں آپ نے ’’خرابات‘‘ جن معنوں میں باندھا، ڈکشنری میں ایسا کوئی لفظ وجود نہیں رکھتا۔باقی چند وہ اشعار بھی ضرور نکالیں جن میں ابتدائی مشقوں کے زمانے کی باتیں پائی جاتی ہیں۔مثلاً

زندگی جان چھوڑ دے میری

اب تو میں موت کے سفر میں ہوں

آپ کے پاس اچھے اشعار کی کمی نہیں۔میڈیکل ڈاکٹر ہونے کیوجہ سے آپ کے پاس شدیددردناک مناظر کی بھی کوئی کمی نہیں۔ آپ کے چہرے پر صاف لکھاہے کہ آپ نہایت نفیس الطبع انسان ہیں ، جس سے ثابت ہوتاہے کہ آپ کے پہلُو میں نرم دل بھی ہے۔ اچھی شاعری کے لیے سارا سامان موجود ہے۔ آپ فی الحقیقت خوش نصیب ہیں۔

اور اس طرح کے اشعار کہتے رہیں،

میں بھی انسان ہوں اِک حد ہے مرے صبر کی بھی

حد بنائی بھی گئی، حد سے گزارا بھی گیا

اگرچہ یہ بھی پرانے موضوعات ہیں اور رنگ کلاسیکی ہے لیکن آپ نے جس لہجے میں بات کی، لطف آیا۔ شعر اچھا لگا۔آپ کی نظموں میں مجھے،’’آرزُوئے حیات‘‘پسند آئی۔ تھوڑی بہت تراش خراش اُس کی بھی ابھی باقی ہے۔اُمید ہے آپ مجھ سے ناراض نہ ہونگے۔ میٹھے کے ساتھ نمکین اور تھوڑی سی کڑوی شراب آج کے دسترخوان میں شامل ہوگئی۔ میں تہہِ دِل سے معذرت خواہ ہوں۔سلامت باشید

ادریس آزاد

مذکورہ بالا مضموں مدیر: قاسم یادؔ نے شائع کیا۔

قاسم یاد گزشتہ بیس سال سے ادریس آزاد کے ساتھ مختلف علمی ادبی سرگرمیوں میں یوں موجود رہے ہیں جیسے درخت کےساتھ مالی۔انہوں نے ادریس آزاد کے قلم کی سیاہی کو کبھی خشک نہیں ہونے دیا۔ وہ خود ایک نہایت باذوق انسان ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ویب ڈویلپر ہیں۔ ادریس آزاد کے بقول اُن کی تمام کُتب کی اوّلین کتابت قاسم یاد نے کی ہے ۔ یعنی ادریس آزاد نے اپنی کُتب خود نہیں لکھیں بلکہ اِملا کروائی ہیں۔ اصل نام قاسم شہزاد۔ قلمی نام قاسم یاد۔ قاسم یاد اب نہیں لکھتے، لیکن کبھی لکھا کرتے تھے۔ استفسار پر فرماتے ہیں، ’’میرے ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھنے کے نہیں‘‘۔ تحریر: محمد ریاض امین